خیرات مرے حرفوں نے پائی ترے در کی

خیرات مرے حرفوں نے پائی ترے در کی

کرتے ہیں سدا مدح سرائی ترے در کی


یہ مدح و ثنا صوت و صدا شعر و ادب سب

یہ اذن و عطا خاص کمائی ترے در کی


ججتی ہی نہیں قصرِ شہی اس کی نظر میں

قدرت نے جسے راہ دکھائی ترے در کی


چمکے گی مری خاکِ لحد اس کے اثر سے

یہ خاک جو ماتھے پہ لگائی ترے در کی


لاتا نہیں خاطر میں وہ شاہانِ زمن کو

’’ ہے جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی ‘‘


سینے میں اُتر آئے ترا نور سراپا

تصویر ہے آنکھوں میں سجائی ترے در کی


یوں ہی تو فروزاں نہیں مہر و مہ و اختر

خیرات اجالوں نے بھی پائی ترے در کی


جبریل چلے آتے تھے سدرہ سے اتر کر

کیا ذوق تھا کیا دُھن تھی سمائی ترے در کی


ہر پھول ہوا دستِ بہاراں سے معطّر

خوشبو جو صبا خیر سے لائی ترے در کی


یہ طلعتِ کونین ترے رُخ کا تصدق

یہ حسنِ جہاں جلوہ نمائی ترے در کی


مدحت سے ہوا کلبۂ جاں خوب منوّر

جب یاد مہکتی ہوئی آئی ترے در کی


امّت پہ تری آج ہے آلام کی یورش

دل دیتا ہے سرکار ! دہائی ترے در کی


بو صیری و جامی کے وسیلے سے ظفر بھی

رکھتا ہے تمنّائے گدائی ترے در کی


اے کاش نصیر آج کریں میری سفارش

’’پلکوں سے کیے جاؤں صفائی ترے در کی‘‘

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

کرو نہ واعظو! ، حور و قصور کی باتیں

رحمت لبھدی شہر مدینے

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ

دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

رکھتا ہے جو بھی دل میں عقیدت حضور کی

ہر جگہ ہیں جلوہ گستر دیکھ لو

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

محشر میں قربِ داورِ محشر ملا مجھے

جو ہے کوئی زمانے میں تو لا مُجھ کو دِکھا زندہ

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا