خاک بوس اُن کے فلک زیرِ قدم رکھتے ہیں

خاک بوس اُن کے فلک زیرِ قدم رکھتے ہیں

یہ حکومت تو سلاطین بھی کم رکھتے ہیں


نعت پڑھنے کے لِئے رکھتے ہیں ہم مُنہ میں زباں

نعت لکھنے کے لئے گھر میں قلم رکھتے ہیں


اے شہِؐ ارض و سما کارکنانِ قُدرت

ہفت گردوں تری دہلیز پہ خم رکھتے ہیں


تیری ٹھوکر میں ہے صد سلطنتِ روم و عجم

تیرے قدموں پہ جبیں قیصر و جم رکھتے ہیں


ہم نے کونین کی سب سے بڑی دولت پائی

سر پہ ہم سایۂ دامانِ کرم رکھتے ہیں


اِسی خلوت اِسی جلوت میں بسر ہوتی ہے

ہم نگاہوں میں حِرا دل میں حرم رکھتے ہیں


قلب کرتا ہے ہمہ وقت تلاوت تیری

ہم تُجھے جاں کے صحیفے میں رقم رکھتے ہیں


بیکراں رافت و رحمت کے خزانے ترے پاس

ایک کشکولِ تمنّا ہے کہ ہم رکھتے ہیں


آج کیوں ہادیء اقوام نہیں وہ اُمّت

جس کے افراد ترا نقشِ قدم رکھتے ہیں


سَرنگوں تابہ کجا، ہم کو سرفرازی دے

ہم رفعنا لک ذِکرک کا عَلَم رکھتے ہیں


یادِ رحمت کا ضرور آئے گا جھونکا عاصؔی

اِسی امّید پہ ہم آنکھ کو نم رکھتے ہیں