خطا ختن کے مشک سے دہن کو باوضُو کروں

خطا ختن کے مشک سے دہن کو باوضُو کروں

تو پھر میں نقشِ پائے مصطفیٰ کی گُفتگُو کروں


یہ آرزُو بسی ہوئی ہے دھڑکنوں کی خُلد میں

کہ فرقتوں کے گھاؤ اُن کی دِید سے رفُو کروں


تجھے ہی سوچتا رہوں میں ہر گھڑی شہِ اُمَم

بجز ترے ہر اک خیال غرقِ آب جُو کروں


ہر ایک نقش ذہن سے مٹا دیا گیا مگر

بس ایک بات یاد ہے کہ ان کی جسُتجُو کروں


قلم ہو وقف سرورِ امم کی نعت کے لئے

ورق ورق مدیحِ مصطفیٰ سے مُشکبُو کروں


نگر نگر سناؤں میں سخاوتوں کے تذکرے

حضور کی نوازشوں کا ذکر سُو بسُو کروں


انہی سے اشک شوئی کی ہے آس میرے قلب کو

تو کیوں نہ عرضِ حالِ دل انہی کے رُوبرُو کروں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

بے بسوں بے کسوں کی دعا مصطفیٰ

مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر لوں

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

شمس الضحیٰ سا چہرہ قرآن کہہ رہا ہے

قلم کو ذوقِ نعت بھی ہے شوقِ احتیاط بھی

خطا ختن کے مشک سے دہن کو باوضُو کروں

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا

حاصل ہے مجھ کو نعت کا اعزاز یا نبیؐ

حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے

روشنی روشنی ’’صراطِ نُور‘‘

جھکا کے اُنؐ کی عقیدت میں سر مدینے چلو