ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

جلد دیکھوں گا میں شہر نبوی کا موسم


فرش پر عرش کے حالات سنائے ہم کو

اُن کے آنے سے گیا بے خبری کا موسم


آپ نے آکے بتائے ہیں بصیرت کے رموز

آپ سے سب کو ملا خوش نگہی کا موسم


اُن کی نسبت سے دُعاؤں کا شجر سبز ہوا

ورنہ ٹلتا ہی نہ تھا بے ثمری کا موسم


گنبد سبز کو چوما تو نظر نے پایا

حق شناسی کا ثمر دیدہ وری کا موسم


تنگ دامانی پہ شرمندہ ہوں اپنی ہی صبیحؔ

دَین میں اُن کی کہاں ورنہ کمی کا موسم

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

دل میں سرکارؐ کا غم رکھ لینا

عالِم ظاہر و مَبطون ! اے امین و مامون

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

مرتبے جو بھی ترے سرور دیں جان گیا

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

خدا نے مصطفےٰؐ کا عشق میرے نام لکھ دیا

پل دے پئے نے دو جہاں صدقے حضور دے

ہَر کلی دِل کی مُسکرائی ہے

مِرے دل میں ہے مدت سے

مَیں آوارہء کُوئے مُحمّؐد