کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی ‘ قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی


میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی

وہ دربار سچ مچ مرے سامنے تھا ابھی تک تصوّر تھا جس کا خیالی


جو اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا تو تھی دوسر ے ہاتھ میں سبز جالی

دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے نہ یہ ہاتھ خالی نہ یہ ہاتھ خالی


جو پوچھا ہے تم نے کہ میں نذر کرنے کو کیا لے گیا تھا تو تفصیل سن لو

نعتوں کا اک ہار‘ اشکوں کے موتی ‘ درودوں کا گجرا ‘ سلاموں کی ڈالی


دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے دیارِ نبی ؐ جس نے آنکھوں سے دیکھا

مقدّر ہے سچا مقدّر اسی کا نگاہ کرم جس پہ آقا نے ڈالی


میں آستان حرم کا گدا ہوں جہاں سجدے کرتے ہیں شایان عالم

مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا مِرا سر ہے شایان تاجِ بلالی


میں تو صیف سرکار کرتو رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں

میں صرف ایک ادنی ٰ ثنا خواں ہوں ان کا کہاں میں کہاں نعتِ اقبال و حالی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ممکن نہ ہو جب پیکرِ انوار کی تصویر

ہم بھی ایک نعت سنانے کے لئے آئے

خوشبو کہتی ہے کہ میں شاید آستاں تک آگیا

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

جو خوش نصیب حرم میں قیام کرتے ہیں

ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

جنت کی نعمتوں سے میں منکر نہیں مگر

دعائے قلبِ خلیل ہیں وہ

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم