کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تری گلی میں
دنیا تری گلی میں عقبےٰ تری گلی میں
دیوانگی پہ میری ہنستے ہیں عقل والے
رستہ تری گلی کا پوچھا تری گلی میں
سورج تجلّیوں کا ہر دم چمک رہا ہے
دیکھا نہیں کسی دن سایا تری گلی میں
کس طرح پاؤں رکھے یاں صاحبِ بصیرت
آنکھیں بچھی ہوئی ہیں ہر جا تری گلی میں
موت و حیات میری دونوں ترے لئے ہیں
مرنا تری گلی میں جینا تری گلی میں
دیوانہ کر دیا ہے دیوانہ ہوگیا ہوں
دیکھا ہے میں نے ایسا جلوہ تری گلی میں
امجدؔ کو آج تک ہم ادنےٰ سمجھ رہے تھے
لیکن مقام اس کا پایا تری گلی میں