لائے پیامِ رحمت حق سیّؐد البشر

لائے پیامِ رحمت حق سیّؐد البشر

فریاد آج نوعِ بشر کی سُنی گئی


فاراں کی چوٹیوں سے ہُوا مہر ضوفشاں

ظلمت نصیب شام و سحر کی سُنی گئی


آیا خدا کو رحم زمانے کے حال پر

انسانیت کے دیدہ تر کی سُنی گئی


آخر ہوئی قبول براہیمؑ کی دعا

مّلت کے زخم ہائے چگر کی سُنی گئی


آدمؑ کی روح جھوم اُٹھی باغِ خلد میں

ایّوبؑ کی ، مسیحؑ و خضرؑ کی سُنی گئی


اُمّی لقب نے فاش کیے زندگی کے راز

عقل و شعور و علم و ہُنر سُنی گئی


بطحا کی وادیوں سے نمودِ سحر ہوئی

آرائشِ حیات برنگِ دگر ہوئی


نگاہ تیرگی کی ردا چاک ہوگئی

پیشِ نگاہ مطلعِ انوار آگیا


اسلوب زندگی کا ہوا دلکش و حسیں

امن و سلامتی کا عَلم دار آگیا


پاکر خدا سے رحمتِ دارین کا لقب

سارے جہاں کا مونس و غم خوار آگیا


سلجھیں تما م گیسو ئے حکمت کی الجھنیں

جب دہر میں وہ کاشفِ اسرار آگیا


گم گشتگانِ راہ نے پایا سراغ زیست

میرِ حجاز و قافلہ سالار آگیا


تثلیث و آزری کو مٹانے کے واسطے

دنیا میں اک خدا کا پر ستار آگیا


دم توڑتی حیات کی نبضیں سنبھل گئیں

تقدیر کے ستاروں کی راہیں بدل گئیں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

دِل کہتا ہے ہر وقت صفت اُن کی لکھا کر

کوئے طیبہ میں کاش گھر ہوتا

پہلوں رب نے نعت سنائی میرے کملی والے دی

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ

برستی رحمتِ پروردگار دیکھیں گے

رب دے محبوب آ گئے ربّ دے دلدار آگئے

تجھ پہ سر و سمن وار دوں

جو بات ظُلم سے نہ ہُوئی پیار سے ہُوئی

کدوں مُکے گا قسمت دا ہنیرا یا رسول اللہ

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک