لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا

لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا

راس آیا مجھے اشکوں کو وسیلہ کرنا


ان کے دامن بھی مرادوں سے وہی بھرتے ہیں

عمر بھر جن کو نہیں آیا تقاضا کرنا


نظر ان کے درِ اقدس پہ جمی رہتی ہے

شان ہے جن کی غم ِ دل کا مداوا کرنا


میرے غم خانے کو ہے ان کی توجہ درکار

جن کو آتا ہے تبسّم سے اجالا کرنا


کاش قسمت میں ہو محبوبِ خداؐ کا دیدار

جن کا منصب ہے تن و روح کو اجلا کرنا


سر بسر معجزہ تھا آپؐ کا اندازِ حیات

کم تھا کیا خَلق کو توحید پہ یکجا کرنا


خُلق کو درجہء معراج پہ کرنا فائز

اور اس کے لیے ہر رنج گوارا کرنا


شانِ سرکارؐ کا سو رنگ میں ظاہر ہونا

حق کا وہ ان کے لیے کعبہ کو قبلہ کرنا


ہٹ کے طیبہ سے مضافات میں بارش ہونا

ابر کا آپ ؐ کے ارشاد کو پورا کرنا


پتھروں اور درختوں کا سلامی دینا

شب کے اک حصّے میں افلاک کا دورہ کرنا


تیرے محبوبؐ سے منسوب ہے تائب یا رب

سرِ محشر اسے خلقت میں نہ رسوا کرنا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

بہارِ بے خزاں آئی گلِ تر مسکراتے ہیں

عکسِ رُوئے مصطفےٰؐسے ایسی زیبائی مِلی

مہرباں ہیں کتنے آقاؐ، آپ بھی

صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنا

پھر نبی کی یاد آئی زلف شہگوں مشکبار

کیا ذکر محمد نے تسکین دلائی ہے

فصیل پر ہیں ہوا کی روشن چراغ جس کے

مرا وظیفہ مرا ذکر اور شعار درود

تضمین برنعتِ حضرتِ مولٰنا جامؔیؒ