مدینے کا سفر ہو اور میں ہُوں

مدینے کا سفر ہو اور میں ہُوں

مقدر اوج پر ہو اور میں ہُوں


چلوں اے کاش میں شوق و ادب سے

میسر چشمِ تر ہو اور میں ہُوں


اذاں رس گھول دے کانوں میں میرے

مدینے کی سحر ہو اور میں ہُوں


تمنا ہے شہا یُوں موت آئے

تمہارا سنگِ در ہو اور میں ہُوں


یونہی گُزرے یہ میری زندگانی

شہا طیبہ نگر ہو اور میں ہُوں


مِلے مَلنے کو مُنہ پہ خاکِ طیبہ

یہی عیدی اگر ہو اور میں ہُوں


نہ چُھوٹے ہاتھ سے دامانِ مُرشد

سدا بس یہ ڈگر ہو اور میں ہُوں


ثنائے رحمتِ کونین مرزا

وظیفہ عُمر بھر ہو اور میں ہُوں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

سرکار مجھے اپنا پھر جلوہ دکھا دینا

ایک آئینہ دیکھ یہ کہا

مدینہ مدینہ ہمارا مدینہ

فضلِ ربُ العُلیٰ حضور آئے

نور لیندے نے ستارے وی مدینے وچوں

جس کا نہ کوئی سایہ نہ ہمسر ملا مجھے

عکسِ حق ہے رُخِ مبینِ حبیبؐ

مدینہ زندگی دی زندگی اے

جو نسبتِ شہِ کون و مکاں ؐ پہ ہیں نازاں

میرا دامانِ شوق تنگ صغیر