مہبطِ نور میں ہے نور سے ڈھالی جالی

مہبطِ نور میں ہے نور سے ڈھالی جالی

دونوں عالم میں نہیں ایسی مثالی جالی


ہم کہاں دیدِ شہِ کون و مکاں کے قابل

ہم نے پلکوں کے کناروں پہ سجالی جالی


جب سے دیکھا ہے کرم بار سنہری منظر

دھڑکنیں ورد کئے جاتی ہیں جالی جالی


قلبِ مغمُوم کو مسرُور کیا ٹھنڈک نے

میں نے جب خواب میں سینے سے لگالی جالی


باعثِ راحت و تسکیں ہے مواجہ کی چمک

شاہ کی قربتِ پیہم سے ہے عالی جالی


روزِ محشر مرے اشکوں کی گواہی دے گی

میری آنکھوں کا وضو دیکھنے والی جالی


میں ہوں اشفاق اِدھر قاسمِ نعمت ہیں اُدھر

درمیاں شاہدِ کشکولِ سوالی جالی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

اسمِ نبی آٹھوں پہر وردِ زباں رکھا گیا

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

وُجُودِ شاعرِ مِدحت پہ خوف ہے طاری

مشامِ جان میں مہکا خیالِ سیدِ عالم

حریمِ قلب سنگِ در سے لف رکھا ہوا ہے

قطارِ اشک مری ہر اُمنگ بھول گئی

ہونٹوں پہ سجایا ہے درودوں کا لبادہ

چاندنی آ کے افلاک سے رات بھر