محفل نعت نبی خوب سجا دی جائے
نامِ محبوب پہ ہر چیز لٹا دی جائے
جو یہ چاہے کہ میسر ہو سکوں کی دولت
اس کو سرکار کی اک نعت سنا دی جائے
اُن کے در سے نہ کبھی غیر بھی لوٹا خالی
اُسی سرکار کے کوچے میں صدا دی جائے
جاں بلب تشنہء دیدار پڑا ہے در پر
شربت دید سے پیاس اس کی بجھا دی جائے
مرے آقا کا یہ اخلاق کریمانہ ہے
تیر برسائے جو اس کو بھی دعا دی جائے
میں یہاں رہ کے بھی جب چاہوں مدینہ دیکھوں
جو بھی دیوار ہے رستے سے ہٹا دی جائے
یا نبی آپ بدلتے ہیں جہاں کی قسمت
میری سوئی ہوئی قسمت بھی جگا دی جائے
مرے سرکار کے ہر آن خزانے ہیں کھلے
مانگنے والوں کو یہ بات بتا دی جائے
آتش فرقت محبوب میں کب تک میں جلوں
مجھ کو بھی دامن رحمت کی ہوا دی جائے
کوئے محبوب خدا میں بنے مدفن مرا
دوستو بس یہی اک مجھے کو دعا دی جائے
تا قیامت کسی صورت بھی نہ اُٹھنے پائے
ان کی چوکھٹ پہ جبیں ایسے جھکا دی جائے
میں بہر حال سناؤں گا نبی کی نعتیں
یہ اگر جرم ہے تو مجھ کو سزا دی جائے
لے کے نذرانہء جاں لاکھوں نکل آئیں گے
اُن کے دیدار کی گر شرط لگا دی جائے
بعد مرنے کے نیازی یہ تمنا ہے مری
دشت طیبہ میں مری خاک اُڑا دی جائے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی