مرے آقا

مرے آقا

زمانے میں


تری

بخشش نرالی ہے


ترے در پہ

شہنشاہوں نے بھی


بگڑی بنالی ہے

نہ مجھ میں کچھ


سلیقہ ہے

نہ کچھ


حُسنِ مقالی ہے

میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں


اور

اتنا ہی کہتا ہوں


کرم کے چند

سکےّ دو


کشکول خالی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

جمالِ ذات کا آئینہ تیری صورت ہے

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

عرشِ عُلیٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہ

خاک پر نُورِ خُدا جسم میں ڈھل کر اُترا

میں نوکر ہوں شاہِ مدینہ کا سُن لو

کب کہتا ہوں نایاب نگینہ مجھے دے دو

محمد مصطفیٰ آئے در و دیوار سج گئے نے

نکہت ہے تن بدن میں، فضا میں نکھار ہے

ہر گھڑی وردِ صلِّ علیٰ کیجئے

میں خود یہاں ہوں دِل ہے اُسی انجمن کے ساتھ