مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

کمالِ حُسن نے آ کر مرا طواف کیا


چلا جو بزم میں دورِ ثنائے سرورِ دیں

تو خوشبوئوں نے بھی ماحول کا طواف کیا


اُنہیں کو ڈھونڈا نظر نے فضائے مکہ میں

میری نگاہوں نے سب سے جدا طواف کیا


نگاہ پڑتے ہی روضے پہ قلبِ پر غم نے

اگر طواف کیا تو بجا طواف کیا


ملی جو خاکِ مدینہ تو سامنے رکھ کر

عدد کی قید سے نکلا، بڑا طواف کیا


ترے گدا نے مسرت سے رقص کرتے ہوئے

تری عطائوں کو دے کر دعا طواف کیا


ہوائے لطف نے پا کر ترے اشارے کو

بروزِ حشر مرا بے بہا طواف کیا


خیالِ حُسنِ نبی کا دلِ تبسم نے

کسی کو کچھ بھی بتائے بِنا طواف کیا

دیگر کلام

یادِ نبی کو دِل سے نکالا نہ جائے گا

کوثریہ

کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر

ساڈے آقا کملی والے دی گفتار دے چرچے گلی و گلی

کیا لطف ہے سخن کا اگر چشم تر نہ ہو

ہے کلامِ پاک میں مدحت رسول اللہ کی

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

بے کس پہ کرم کیجئے، سرکار مدینہ​

ہے فضلِ کردگار مدینہ شریف میں

مدینے دا لطف و کرم الله الله