ملا نہ سایہ کوئی ان کی رحمتوں کی طرح
جو دشمنوں سے کرے پیار دوستوں کی طرح
کریم ہیں وہ یقیناً، معاف کر دیں گے
چل ان کے در پہ بندھے ہاتھ مجرموں کی طرح
نہ رکھے حبِ نبیؐ اور خدا کو یاد کرے
وہ جی رہا ہے مسلمان کافروں کی طرح
دلوں کی بستیاں زرخیز کر گئیں آنکھیں
برس رہی ہیں جو ساون کے بادلوں کی طرح
نظر میں اہل نظر کی ہے، قدسیوں کی قطار
در نبیؐ پہ جو آتے ہیں سائلوں کی طرح
تپش میں چین، تھکن میں مزا، تڑپ میں سکوں
انہیں ملے گا جو جیتے ہیں عاشقوں کی طرح
ظہوریؔ کیسے ملے ان کو گوہر ِ مقصود
محبتیں جو بدلتے ہیں موسموں کی طرح
لب کھولتے ہیں مدحتِ سرکارؐ کے لیے
ہم جی رہے ہیں سیدِؐ ابرار کے لیے
ارض و سما میں جو بھی خدا نے بنا دیا
سب کچھ ہے دو جہان کے سردارؐ کے لیے
ارض و سما میں جو بھی خدا نے بنا دیا
سب کچھ ہے دو جہان کے سردارؐ کے لیے
وہ شہرِ بے مثال، مدینہ کہیں جسے
اللہ نے چن لیا اسے دلدار کے لیے
مدت سے منتظر ہے مری چشمِ انتظار
محبوبِ کائنات کے دیدار کے لیے
آنکھوں میں اشک، آہ لبوں پر، جگر میں سوز
نسخہ یہی ہے عشق کے بیمار کے لیے
نسبت ظہوریؔ روضہء اطہر سے ہو گئی
لاکھوں سلام اس در و دیوار کے لیے
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- توصیف