مُفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی
مجھ کو عشقِ نبی اِس قدر مِل گیا
جگمگائے نہ کیوں میرا عکسِ دُروں
ایک پتّھر کو آئینہ گر مِل گیا
جس کی رحمت سے تقدیر اِنساں کھُلے
اُس کی جانب ہی دروازۂ جاں کھُلے
جانے عمرِ رواں لے کے جاتی کہاں
خیر سے مجھ کو خَیر البشر مِل گیا
محورِ دو جہاں ذات سرکار کی
اور مِری حیثیت ایک پرکار کی
اُس کی اِک رہ گزر طے نہ ہو عُمر بھر
قِبلۂ آرزُو تو مگر مِل گیا
اُس کا دیوانہ ہوں اُس کا مجذوب ہوں
کیا یہ کم ہے کہ میں اس سے منسُوب ہوں
سرحدِ حشر تک جاؤں گا بے دھڑک
مجھ کو اِتنا تو زادِ سفر مِل گیا
جس طرف سے بھی گذریں مری خواہشیں
مجھ سے بچ کر نکلتی رہیں لغزشیں
جب جھکائی نظر جھک گیا میرا سر
نقشِ پا اُس کا ہر موڑ پر مل گیا
ذہن بے رنگ تھا سانس بے رُوپ تھی
رُوح پر معصیت کی کڑی دُھوپ تھی
اُس کی چشمِ غنی رونقِ جاں بنی
چھاؤں جِس کی گھنی وہ شجر مل گیا
جب سے مجھ پر ہُوا مُصطفےٰ کا کرم
بن گیا دل مظفر چراغِ حرم
زندگی پھر رہی تھی بھٹکتی ہُوئی
میری خانہ بدوشی کو گھر مِل گیا
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی