مجھے بھی لائے گا شوقِ سفر ’’مواجہ‘‘ پر

مجھے بھی لائے گا شوقِ سفر ’’مواجہ‘‘ پر

شبِ فراق کی ہو گی سحر ’’مواجہ‘‘ پر


زباں سے عرضِ تمنا نہ کر سکا لیکن

کھڑا تھا ہاتھ، مگر باندھ کر ’’مواجہ‘‘ پر


ازل سے محوِ سفر ہے ہمارا ذوقِ نظر

تمام ہو گا ہمارا سفر ’’مواجہ‘‘ پر


اُنہیؐ کے جود و عطا کا جہاں میں شہرہ ہے

یہیؐ لٹاتے ہیں لعل و گہر ’’مواجہ‘‘ پر


طبیبو ! جاؤ تمہارے یہ بس کا روگ نہیں

ملیں گے مجھ کو مرے چارہ گر ’’مواجہ‘‘ پر


نہ دیکھ پایا ’’مواجہ شریف‘‘ جی بھر کے

جھُکی جھُکی سی پڑی ہے نظر ’’مواجہ‘‘ پر


غموں کی دھوپ سے مل جائے گی نجات مجھے

نصیب میں ہے اگر دوپہر ’’مواجہ‘‘ پر


مرادیں مانگ لو دونوں جہاں کی مولا سے

چلے ہی آئے ہو اشفاقؔ گر ’’مواجہ‘‘ پر

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

لج پال اوہ والی امت دا ، امت دے درد ونڈاؤندا اے

یہ غم نہیں ہمیں روزِ حساب کیا ہوگا

آرزوئیں کیسی ہیں کاش یوں ہوا ہوتا

مِل گئے گر اُن کی رحمت کے نقوش

شافعِ محشر کا واصف جو یہاں ہوجائے گا

مشکل میں ہیں نبیﷺ جی

پھر عطا کر دیجئے حج کی سعادت یارسول

سکوں دل کو کسی عالم نہیں ہے

میرے نصیب مُجھ کو سعادت ہوئی نصیب

ایک سیلِ آرزو ہے اور مَیں