مراد مل گئی کوئی صدا لگا نہ سکے

مراد مل گئی کوئی صدا لگا نہ سکے

درِ کرم سے کبھی خالی ہاتھ آ نہ سکے


وہاں بھی انکی عقیدت ہی رنگ لاتی ہے

کہ جس مقام پہ کوئی ہمیں بچا نہ سکے


نقوش چھوڑ گئے ہیں جو ان کے دیوانے

زمانے والے انہیں آج تک مٹا نہ سکے


درِ رسولؐ پہ جا کر میں یوں پلٹ جاؤں

اگر اٹھا ئے وہاں سے کوئی اٹھانہ سکے


تمہاری یا د میں کھو جائیں اس طرح آقاؐ

کوئی جہاں میں ہمارا سراغ پا نہ سکے


نظر فروز ہے جن کا نقابِ رعنائی

نقاب اٹھائیں تو کوئی بھی تاب لا نہ سکے


گدا نواز گدا کو نواز دے اتنا

کسی کے سامنے دستِ طلب بڑھا نہ سکے


ہمارے دل میں سمایا ہوا ہے وہ جلوہ

جو کائنات کی وسعت میں بھی سما نہ سکے


حضورؐ آپ کے نقشِ قدم وہاں بھی ہیں

جہاں خیال و تصور کسی کا جانہ سکے


انہیں خبیر و علیم و بصیر مانتے ہیں

ہم ان کو حال بھی اپنا کبھی سنا نہ سکے


وہ شمعِ عشقِ محمدؐ جلاؤ اے خالدؔ

جسے ہوائے مخالف کبھی بجھا نہ سکے