مسرت، شادمانی، اور شہرت بھی میسر ہے

مسرت، شادمانی، اور شہرت بھی میسر ہے

مِرے دامن میں جو ہے صدقۂ نعتِ پیمبر ہے


بجا زاہد مِرے اعمال کا دفتر سیہ تر ہے

بھروسا بھی تو مجھ کو رحمتہ للعالمیں پر ہے


تصور کے قدم جاکر جہاں دم توڑ دیتے ہیں

مقام اُن کا وہاں سے اور اوپر اور اوپر ہے


شہِ بطحاٰ کی زلفیں آیتِ والیل کی تفسیر

وضاحت والضحیٰ کی آپ کا روئے منور ہے


کہا کفار نے ابتر تو قرآں یہ پکار اُٹھا

حقیقت میں رسول اللہ کا دشمن ہی ابتر ہے


جبیں گِھستا ہے سورج مصطفےٰ کے در پہ آ آ کر

تبھی تو آسماں پر اس قدر اتنا منور ہے


پسینہ جس دلہن نے مل لیا حضرت محمدﷺ کا

پھر اُس کی سات نسلوں تک ہر اک بچہ منور ہے


جمالِ مصطفےٰ کا تو تصور بھی نہیں ممکن

قمر کیا ہے؟ فقط عکسِ کفِ پائے منور ہے


شفیقؔ آکر فرشتے قبر میں کہدیں تو کیا کہنا

اِسے آرام کرنے دو نبی کا یہ ثنا گر ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

کملی والے آپ نے ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

اسم لکھّوں کہ اسمِ ذات لکھوں

ہر اوج ہے پستی میں فروتر شبِ معراج

خلوت كده دل گل خندان محمد

آپ محترم شہِ امم

جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

سلطانِ زمن احمدِ مختار کے باعث

مجھ کو سردی میں بھی آتے ہیں پسینے کیسے

قطارِ اشک مری ہر اُمنگ بھول گئی

کبھی تو قافلہ اپنا رواں سُوئے حرم ہو گا