نہ ایمن کی حسیں وادی نہ حسنِ طور سینا ہے

نہ ایمن کی حسیں وادی نہ حسنِ طور سینا ہے

عقیدت کا مری مرکز فقط شہرِ مدینہ ہے


ادھر بھی اِک نظر کردے بہت دشوار جینا ہے

الٰہی خیر فرما دے تلاطم میں سفینہ ہے


سوا ہے جس کی خوشبو مشک و عنبر سے گلِ تر سے

رسولِ پاکؐ کے وہ جسمِ اطہر کا پسینہ ہے


نہ ہو عشقِ پیمبر کی تجلی جس کی ہستی میں

سمجھیے اس کا دل تاریک ہے، بے نور سینہ ہے


مئے حُبِ نبیؐ سے جو ہوا سرشار دنیا میں

سرِ محشر یقیناً جامِ کوثر اس کو پینا ہے


سجاتے ہیں غلامانِ نبیؐ میلاد کی محفل

جو ہیں میلاد کے منکر، نبیؐ سے ان کو کینہ ہے


ابو بکر و عمر عثمان و حیدر بوذر و طلحہ

نبیؐ کا ہر صحابی لعل و گوہر ہے، نگینہ ہے


فقط صدقہ ہے یہ سرکار کے فیضانِ رحمت کا

ہمارے پاس جو یہ آج جینے کا قرینہ ہے


عطا احسؔن کو کردے یا خدا حسان کا صدقہ

شعورِ نعت گوئی ہے نہ مدحت کا قرینہ ہے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

پاک مُحمّد جگ دا والی

ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں

جس کو شرف مآب کرے وصفِ پائے خاص

نہ صرف قلبِ تپاں کی ہے تازگی کے لیے

روز و شب ہم مدحت خیر الوراﷺ کرتے رہے

ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر

سوئے تشنہ لباں ساغر گیا ہے

وہ ہے رسُول میرا

ربا سُن لے میریاں ہاواں مدینے والا ماہی میل دے

نہ دنیا میں اگر مہرِ رسالت ضوفشاں ہوتا