نہ تمنا دولتوں کی نہ ہی شہرتوں کی خواہش
ترے در پہ لے کر آئی مجھے رتجگوں کی خواہش
مِرےدل میں ہے یہی اک بڑی خواہشوں کی خواہش
درِ مصطفےٰ پہ رہ کر ہے عبادتوں کی خواہش
ترے ذکر کی حرارت ہو مِرے نفس نفس میں
تری فکر ہی میں گزرے یہ ہے دھڑکنوں کی خواہش
مِری راہ پر نہیں ہیں کہیں دور تک اندھیرے
مجھے لے کے چل رہی ہے تری طلعتوں کی خواہش
ترے رب نے کی حفاظت بُنے مکڑیوں نے جالے
بھلا کیسے پوری ہوتی ترے دشمنوں کی خواہش
نہیں آتے وہ دوبارہ درِ پاکِ مصطفےٰ پر
نہیں ہوتی بار آور یہی قدسیوں کی خواہش
درِ پا کِ مصطفےٰ ﷺ پر شفیقؔ آئے موت مجھ کو
ہے غریب دل میں میرے بڑے مرتبوں کی خواہش