نشانِ پائے محمدؐ جہاں جہاں دیکھا

نشانِ پائے محمدؐ جہاں جہاں دیکھا

وہاں زمیں کے نیچے بھی آسماں دیکھا


بہار جلوتِ خیر الانام کیا ہوگی

کہ تخلیئے میں بھی اک جشن کا سماں دیکھا


بس اک نگاہ پڑی تھی حضورؐ پر میری

پھر اُس کے بعد نہ خود کو بھی درمیاں دیکھا


ازل سے لے کے ابد تک ہے روشنی اُن کی

وجودِ حرف میں ان کو اذاں اذاں دیکھا


اُجاڑ دل کی اُنہوں نے جو خیریت پوچھی

میں رو پڑا تو ہر آنسو میں گلستاں دیکھا


گیا ہے جب کوئی بازارِ مصطفےٰؐ کی طرف

مجھے کھڑا ہوا اُس نے دکاں دکاں دیکھا


کیا نبیؐ نے خلائی سمندروں کا سفر

تو ناؤ برق کو بادل کو بادباں دیکھا


میانِ قرب کوئی حدِّ امتیاز نہ تھی

جب اُن کو عرش خدا پر براجماں دیکھا


حضورؐ مجھ پہ مظفر جو مہربان ہوئے

تو میں نے سارے زمانے کو مہرباں دیکھا