نور ونکہت کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہے

نور ونکہت کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہے

زلفِ واللیل ہواؤں میں جو لہرائی ہے


جس پہ فردوس بھی سو جان سے شیدائی ہے

باغِ طیبہ میں عجب لطف ہے رعنائی ہے


اتنی گہرائی کہاں تجھ میں ہے بحرؔ الکاہل

بحرِ عشقِ شہِ والامیں جو گہرائی ہے


خود کھنچا جاتا ہے دل میرا مدینے کی طرف

جب سے آنکھوں میں بسی صورتِ زیبائی ہے


خود بخود دل مرا سینے سے چلا سوئے نبی

سبز گنبد کی جو تصویر نظر آئی ہے


زخم گہرا ہے دوا دیجے طبیبوں کے طبیب

آپ کی ذات تو صد رشکِ مسیحائی ہے


توڑ رکھّی ہے کمر سنگِ حوادث نے شہا

لیجیے جلد خبر جان پہ بن آئی ہے


یادِ طیبہ تری نکہت پہ میں قرباں دل سے

تیری خوشبو سے مہکتی مری تنہائی ہے


اپنی تقدیر پہ نازاں نہ ہو کیوں وہ احمدؔ

ان کے کوچے میں جسے موت و قضا آئی ہے


دافعِ رنج و الم کیجیے للہ کرم

سر پہ احمد کے مصیبت کی گھٹا چھائی ہے