پڑھ لے صلِ علیٰ ابھی کے ابھی
غم چلا جائے گا ابھی کے ابھی
مصطفےٰ چاہیں تو مدینے میں
ہو مِرا داخلہ ابھی کے ابھی
روضۂ شاہ پر کھڑا ہوں میں
آ چلی آ قضا ابھی کے ابھی
چھائے گی پڑھ کے دیکھیے تو درود
رحمتوں کی گھٹا ابھی کے ابھی
اے سلام و قیام کے منکر
اُٹھ کے محفل سے جا ابھی کے ابھی
دیکھ بِکتا ہوں کیسے طیبہ میں
دام کچھ بھی لگا ابھی کے ابھی
ہو جو قرآن پر عمل تو ملے
عظمتِ گمشدہ ابھی کے ابھی
بزم حمد و ثنا کی سجتے ہی
نور سا چھا گیا ابھی کے ابھی
عَرَقِ انفعال ہو تو شفیقؔ
بخش دے گا خدا ابھی کے ابھی