پتھر کی پتھر ہی رہتی تیری اگر نہ ہوتی

پتھر کی پتھر ہی رہتی تیری اگر نہ ہوتی

جب سے میں نے تجھے چھُوا مجھے لگ گئے ہیرے موتی


کانوں میں آہٹیں تھیں دیواروں پر تیرے سائے

ہجر کی کھٹیا پر میں کیسے لمبی تان کے سوتی


سانسیں شعلے بن کر نکلیں آنکھیں لَو دیتی ہیں

رُوئیں رُوئیں میں جاگ رہی ہے تیرے عشق کی جوتی


تیری خوشنودی و رضا کے اتنے پھول نہ کھلتے

دل کی بنجر زمیں پہ آہیں آنسو اگر نہ بوتی


ساحل کی آوازیں اگر نہ آتیں گہرائی سے

جان بوجھ کر کیوں تیرے دریا میں ناؤ ڈبوتی


تیری رحمت اٹھا نہ لیتی ڈھیروں پاپ جو میرے

جیون گٹھڑی کا میں کیسے بوجھ کمر پر ڈھوتی


مجھ پیاسی کا پیا مظفر اگر خیال نہ رکھتے

ریت پہ بیٹھ کے پھر کیسے لہروں کے ہار پروتی