قدموں سے پھُوٹتی ہے چمک ماہتاب کی
دہلیز پر کھڑا ہُوں رسالت مآب کی
ہے چہرۂ رسُول نگاہوں کے سامنے
تفسیر پڑھ رہا ہُوں مَیں اُمّ الکِتاب کی
اُس والیِ بہار کا دامن ہے ہاتھ میں
مٹّی ہے جس کے سامنے خُوشُبو گُلاب کی
مُجھ بے نوا فقیر کی آنکھیں سوال ہیں
خیرات مانگتی ہے سماعت جواب کی
گھر جس کو پانیوں پہ بنانے سکھائے تھے
رُلتی ہے ساحلوں پہ وُہ اُمّت جناب کی
روضے کی جالیوں سے جکڑ دیجئے مجھے
زنجیر کاٹ دیجے مِرے اضطراب کی
سویا ہُوا ہوں آپ کے قدموں کی خاک پر
تعبیر بھی ہو کاش یہی میرے خواب کی
جذبِ جمال ہو کے بھی چمکی نہیں نظر
مُجھ کو صلاحیّت ہو عطا اِکتساب کی
سانسیں ہیں پُل صراط مظفّر کے واسطے
دُنیا بھی اِک مثال ہے روزِ حساب کی