رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا
تجھ سے نہ محبت ہوتی تو ایمان پیاسا رہ جاتا
والّیل کی میٹھی باتیں بھی محرومِ سماعت ہو جاتیں
تعریف نہ ہوتی گر تیری قرآن پیاسا رہ جاتا
طیبہ میں ترے گر قدموں کی آہٹ نہ سُنائی دے جاتی
سینوں میں تمنّا کا اُٹھتا طوفان پیاسا رہ جاتا
ہر بات ادھوری رہ جاتی ہونٹوں پہ دو عالم کے آخر
دارین کی زیب و زینت کا سامان پیاسا رہ جاتا
اَسریٰ کے مسافر کا سایہ پڑتا نہ اگر اس دنیا میں
انسان کی عظمت کا ہر اِک عنوان پیاسا رہ جاتا
معراج کی شب کے دامن کو بھرتے نہ فرشتے خوشبو سے
کونین سجانے والے کا ارمان پیاسا رہ جاتا
پتھر نہ چمکتے گلیوں کے ، تعظیم نہ بڑھتی غاروں کی
ہر شخص کی بخشش کا ہراِک امکان پیاسا رہ جاتا
کوثر پہ کھڑے ہو کر مدنی ساغر نہ پلاتے گر انجؔم
اُس وادئ محشر کا ہر اِک مہمان پیاسا رہ جاتا