سنگ باریِ ظلم و ستم سے زخم جب جب بھی کھائے ہیں آقاؐ

سنگ باریِ ظلم و ستم سے زخم جب جب بھی کھائے ہیں آقاؐ

ظلم کے بدلے رحمت کے گوہر سوئے ظالم لُٹائے ہیں آقاؐ


فرشِ گیتی پہ تشریف لا کر دینِ وحدت کا سورج اُگا کر

کفر و باطل کی تیرہ شبی کو اس جہاں سے مٹائے ہیں آقاؐ


اپنی امّت کی بخشش کی خاطر پنج وقتہ نمازوں کی صورت

ہے وہ اک تحفۂ قیمتی جو عرشِ اعظم سے لائے ہیں آقاؐ


چل رہی ہیں مخالف ہوائیں پھر بھی تیرے غلامانِ صادق

اپنے دل میں چراغِ عقیدت آندھیوں سے بچائے ہیں آقاؐ


روز و شب اپنی امّت کی خاطر سر بسجدہ نمازوں میں ہو کر

شعلۂ نارِ دوزخ کو اپنے آنسوؤں سے بجھائے ہیں آقاؐ


اپنی دہلیزِ رحمت کی اب تو یا نبیؐ حاضری بخش دیجے

آرزوئے حضوری میں ہم بھی کب سے پلکیں بچھائے ہیں آقاؐ


اللہ اللہ شانِ پیمبر سر پہ تاجِ شفاعت سجا کر

حشر کے دن ردائے کرم میں عاصیوں کو چھپائے ہیں آقاؐ


ہم ہیں خوش بخت بہرِ سعادت چند اشعار مدح و ثنا کے

آپ کی بارگاہِ کرم میں حسب توفیق لائے ہیں آقاؐ


دیکھ صدیق کی شانِ رفعت دے کے ان کو رفاقت امامت

مسندِ افضلیّت پہ خود ہی بہرِ عظمت بٹھائے ہیں آقاؐ


گر گئی ہاتھ سے تیغِ باطل پا گئے ابنِ خطّاب منزل

دارِ ارقم میں سوئے عمر جب چشمِ رحمت اٹھائے ہیں آقاؐ


وہ غنی جو حیا کے ہیں پیکر ان کا ثانی نہیں کوئی دیگر

عقد میں دے کے دو بیٹیوں کو شانِ عثماں بڑھائے ہیں آقا


وہ علی تاجدارِ ولایت بن کے چمکے ہیں مہرِ شجاعت

خاص درسِ ہدایت سے ان کو ایسا کندن بنائے ہیں آقاؐ


تشنہ لب در پہ آتے ہیں لاکھوں اور جاتے ہیں سیراب ہو کر

در پہ اپنے کریمی کا احسنؔ ایسا دریا بہائے ہیں آقاؐ


کاش اک دن نسیمِ مدینہ آکے مجھ کو یہ مژدہ سنا دے

پھر بلاتے ہیں پہلے بھی احسنؔ در پہ تجھ کو بلائے ہیں آقاؐ