شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

گویا خاکِ عجم نے قمر چھو لیا


میرے لفظوں کو رتبہ ملا نعت کا

میرے خامہ نے اوجِ ہنر چھو لیا


جب نظر نے چھوا گنبدِ سبز کو

اک اماوس نے روئے سحر چھو لیا


جس کی تنصیب دستِ کرم سے ہوئی

مجھ گنہگار نے وہ حجر چھو لیا


دل مدینے کی خاطر مچلنے لگا

زائروں کا جو رختِ سفر چھو لیا


جس پہ رہتے ہیں حاضر ہزاروں ملک

میری پلکوں نے وہ مستقر چھو لیا


آپ کا واسطہ دے کے مانگی گئیں

سب دعاؤں نے بابِ اثر چھو لیا


لفظ نے چھو لیے مدحتوں کے قدم

خشک ٹہنی نے شیریں ثمر چھو لیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

دربار نبیؐ میں جھکتے ہی

درِ نبیؐ کو مسافر جو بڑھ کے آلیں گے

درودِ پاک کی کثرت پسند آتی ہے

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا

ہو کرم سرکارﷺ اب تو ہو گۓ غم بے شمار

خوشبوئے گلستان نہ شبنم ہے معتبر

شوقِ طلب نہاں نہاں حرفِ سخن جلی جلی

سنا کر نعت ذوقِ نعت کی تکمیل کرتے ہیں

جیہڑے کر دے حضور دا میلاد رہن گے

ہو کرم کر سکوں رقم مدحت