شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

یہ ہے حضور آپ کی خاکِ قدم کا فیض


سارا جہاں اٹھاتا ہے ان کے کرم کا فیض

ارزاں ہے سب کے واسطے شاہِ اُمم کا فیض


کعبے کا لطف روضئہِ سرکار کے مزے

شکرِ خدا ملا مجھے دونوں حرم کا فیض


ورنہ حضور دہر میں جینا محال تھا

ہوتا اگر نہ آپ کے لطف و کرم کا فیض


تیری تِرے حبیب کی حمد و ثنا کروں

کردے عطا خدایا رضا کے قلم کا فیض


شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

یہ ہے حضور آپ کی خاکِ قدم کا فیض


اس بات پر یقیں ہے شفیقِؔ لئیم کو

محشر میں بھی ملے گا شفیعِ امم کا فیض

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

یہ نوازشیں یہ عنایتیں غمِ دوجہاں سے چھڑا دیا

ایک ایک قولِ پاکِ شہِ دوسرا ہے سچ

یا نبی ہم پر عنایت کیجئے

غم ہو گئے بے شمار آقا

معنیِ حرفِ کُن

لوائے حمد اُن کے ہاتھ میں ہو گا

آفاق میں جو سب سے بھلی در کی عطا ہے

ذہن کو اپنے سجالوں تو ترا نام لکھوں

کیوں عمر شرح زلفِ بُتاں میں گنوائی جائے

لطفِ حق عام ہوا ہادی و سرور آیا