شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

غلاموں کے وہ درمیاں آ گئے ہیں


غریبوں، یتیموں نے خوشیاں منائیں

جو سب کے ہیں وہ مہرباں آ گئے ہیں


مزمل، مدثر، وہ یٰسین و طہٰ

لیے عظمتوں کے نشان آ گئے ہیں


بڑے ناز سے کہہ رہی ہے حلیمہؓ

مری گود میں دو جہاں آ گئے ہیں


دعائے خلیلؑ و نوید ِ مسیحا

وہی سرورؐ سروراں آ گئے ہیں


جگر گوشہء آمنہؓ ، پدرِ زہراؓ

وہ حسنینؓ کے نانا جاں آ گئے ہیں


ظہوریؔ مدینے میں پہنچے ہوئے تھے

نہ جانے وہاں سے کہاں آ گئے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

کھُلا بابِ حرم الحمد اللہ

قُدرت نے آج اپنے جلوے دکھا دیئے ہیں

حسنِ لاریب محمد کے خد و خال میں ہے

کسی کا نہ کوئی جہاں یار ہوگا

اے رونقِ بزمِ جہاں تم پر فدا ہو جائیں ہم

ساریاں ستاریاں چ نُور آپ دا

رنگ ہستی نکھر نکھر جائے

مدینے میں بھریں گے کاسہ و دامان کہتے ہیں

رات دن اُن کے کرم کے گیت ہم گاتے رہے

سرکارِ دو عالم کا اگر در نہیں دیکھا