سو بسو تذکرے اے میرِؐ امم تیرے ہیں

سو بسو تذکرے اے میرِؐ امم تیرے ہیں

اوجِ قوسین پہ ضَو ریز عَلَم تیرے ہیں


وقت اور فاصلےْ کو بھی تری رحمت ہے محیط

سب زمانے ترے ، موجود و عدم تیرے ہیں


جیسے تارے ہوں سرِ کاہکشاں جلوہ فشاں

عرصہ زیست میں یوں نقشِ قدم تیرے ہیں


اہلِ فتنہ کا تعلّق نہیں تجھ سے کوئی

قافلے خیر کے اے خیر شیم تیرے ہیں


ہیں تری ذات پہ سو ناز گنہگاروں کو

کیسے بے ساختہ کہتے ہیں کہ ہم تیرے ہیں


ہم کو مطلوب نہیں مال و منالِ ہستی

ہم طلبگار فقط تیری قسم تیرے ہیں


ناز بردارئ دنیا کی مشقّت میں نہ ڈال

ہم کہ پروردہ صد ناز و نعم تیرے ہیں


ان کی خوشبو سے مہک جائے مشامِ عالم

میرے دامن میں جو گلہائے کرم تیرے ہیں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

مری بے بسی پہ کرم کرو

کیسے بیاں ہو شان کما حقہ تِری

مدینہ میں بلا اے رہنے والے سبز گنبد کے

آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تُو

طلوع فجر سے پہلے

ہم کو رحمٰن سے جو ملا، اس محمدؐ کی کیا بات ہے

قلم سے لوح سے بھی قبل

راہیا سوہنیا مدینے وچہ جا کے تے میرا وی سلام آکھ دئیں

جیوں دَرد ونڈ دا اے مدینے دا والی

خدا دی خدائی دا سلطان آیا