ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ہر اک آتش کدہ افسوس سے بھرنے لگا آہیں


یہ کیسا انقلاب آیا کہ آتش بن گیا پانی

ترے انوار اک زندہ شہادت کی طرح روشن


نگاہِ کفر و ظلمت ہو گئی اندھی

نگام کفر نے انوار کی بارش نہیں دیکھی


سماعت چھین لی کفار کی رعد ولادت نے

شہاب سرخ کی مانند شعلوں کی ہوئی بارش


کہ جن کے خوف سے بت گر پڑے بے اختیاری میں

شیاطین اس طرح بھاگے کہ جیسے ابرہہ کی فوج بھاگی تھی