اُن کا نقشِ قدم چاہیے

اُن کا نقشِ قدم چاہیے

روشنی کا عَلَم چاہیے


مِل تو جائے گا عشقِ رسُولؐ

کا سہء چشمِ نَم چاہیے


آئِنوں کی ضرورت نہیں

عکسِ خَیر الا مم چاہیے


مُجھ سے لے لو مِری ہر خوشی

بس مُحمّد ؐ کا غم چاہیے


آخری سانّس لوں اُن کے پاس

زندگی مرتے دَم چاہیے


سَیر کرنی ہے افلا ک کی

سر زمینِ حرم چاہیے


ہو بھی جا دِل فنا فیِ الرّسُول ؐ

ہستیِ بے عدم چاہیے


ہو ہی جائے گا راضی خُدا

مصطفےٰ کا کرم چاہیے


جس سے نعتیں لِکھوں عرش پر

وہ مظفّؔر قلم چاہیے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

ویکھ لواں اک وار مدینہ

کملی والے میں صدقے تیرے شہرے توں

دو عالم میں جو نور پھیلا ہُوا ہے

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

وہ حسن بے نقاب ہوا بارہا مگر

نام ہے جس کا بڑا جس کی بڑی سرکار ہے

عشق شہ دیں مر کے بھی مرنے نہیں دیتا

نصیب تیرے کرم سے چمک اٹھا یا رب

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں

ہر رفعتِ دُنیا مری سرکارؐ پہ واری