وصف لکھنا حضورِ انور کا
ہے تقاضہ یہ مرے اندر کا
وہ ہیں آئینہ جمال ایسا
عکس ہے جس میں آئینہ گر کا
آپ کو جو نہیں ، ہمارا نہیں
ہے یہ اعلان ربِّ اکبر کا
دشمنوں کی زباں تک پہنچا
تذکرہ ان کے خُلقِ اطہر کا
جس میں ان کی ثناء کے دیپ جلیں
ہیں اُجالے مقدر اس گھر کا
میرے طاق دعا میں ہے روشن
اک چراغ اسم پاک سرور کا
بخش دے جو سوال سے پہلے
ہوں گدا اس درِ مخیّر کا
گُل نظارہ صحن جاں میں کھِلے
دیکھ لوں میں بھی در پیمبر کا
کون ہے اے صبیحؔ اُن کا مثیل
ہے تصوّر محال ہمسر کا