وہ یہ جان لے جو ہے بے خبر جسے شانِ آقاؐ پتہ نہیں
نہیں جس سے راضی مرے نبیؐ تو پھر اس سے راضی خدا نہیں
ہوا دور طیبہ کی گرد سے وہ مرض بھی جس کی دوا نہیں
درِ مصطفیٰؐ کی وہ خاک ہے کہیں ایسی خاکِ شفا نہیں
ہے چراغِ حُبِ رسولؐ جو اسے کیا بجھائیں گی آندھیاں
اے منافقو! یہ دیا ہے وہ جو کسی ہوا سے بجھا نہیں
وہ تمام اندھے ہیں عقل کے جو کریں رسولؐ کی ہمسری
کوئی کائنات میں آج تک مرے مصطفیٰؐ سا ہوا نہیں
نہ جہاں میں آتے اگر نبیؐ بھلا کیسے کوئی یہ جانتا
جنہیں مانتے تھے سبھی خدا وہ بتانِ دیر خدا نہیں
وہ سوالِ قبر سے کیا ڈرے جسے اپنا کہہ دیں شہِ امم
جو نبیؐ کا سچا غلام ہے اسے خوفِ روزِ جزا نہیں
وہ ستم گرانِ عرب ہوں یا ہوں عدوئے دینِ پیمبراں
یہ بتاؤ کس کے لیے بھلا لبِ مصطفیٰؐ پہ دعا نہیں
درِ مصطفیٰؐ پہ جبینِ دل بصد احترام ہے خم مگر
یہ سرِ نیاز بجز خدا کسی در کے آگے جھکا نہیں
رہِ نعتِ شہ کے مسافرو! بصد احتیاط کرو سفر
بڑی پُر خطر ہے یہ رہ گزر یہاں جائے لغزشِ پا نہیں
ہے درِ نبیؐ کی وہ دلکشی جسے دیکھ لینے کے بعد بھی
نہ تو پیاس دید کی کم ہوئی مرا جی بھی خوب بھرا نہیں
ہے یہ عرضِ احسؔنِ اعظمی اسے پھر دکھا دے درِ نبیؐ
بجز اس کے کوئی نہ آرزو کوئی التجا اے خدا نہیں
شاعر کا نام :- احسن اعظمی
کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت