ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے

ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے

تاجِ سر بنتے ہیں سیّاروں کے


ہم سے چوروں پہ جو فرمائیں کرم

خلعتِ زر بنیں پشتاروں کے


میرے آقا کا وہ در ہے جس پر

ماتھے گھِس جاتے ہیں سرداروں کے


میرے عیسیٰ تِرے صدقے جاؤں

طور بے طور ہیں بیماروں کے


مجرمو! چشمِ تبسم رکھو

پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے


تیرے ابرو کے تصدق پیارے

بند کرّے ہیں گرفتاروں کے


جان و دل تیرے قدموں پر وارے

کیا نصیبے ہیں ترے یاروں کے


صدق و عدل و کرم و ہمت میں

چار سو شُہرے ہیں اِن چاروں کے


بہر تسلیم علی میداں میں

سرجھکے رہتے ہیں تلواروں کے


کیسے آقاؤں کا بندا ہوں رضؔا

بول بالے مِری سرکاروں کے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

میرا نبی جیسا ہے کوئی ایسا ہو تو بات کرو

حبیبِ ربِ دو عالم کا نام چومتے ہیں

کُجھ نئیں درکار سانوں سامنے یار ہووے

میرے چن، میرے ماہی، میرے ڈھول سوہنیا

مچی ہے دھوم کہ نبیوں کے تاجور آئے

رخ پہ رحمت کا جھومر سجائے کملی والے کی محفل سجی ہے

وکھا دے مولا اسانوں گلی مدینے دی

شافعِ روزِ محشر ہمارے نبی

وہ جو قرآن ہو گیا ہوگا