لب عیسی پہ بشارت کی جو مشعل تھا کبھی

لب عیسی پہ بشارت کی جو مشعل تھا کبھی

عہد حاضر کے اندھیروں میں دکھائی دے گا


جس کے ہونٹوں سے ملے لفظ و معانی کو گہر

وہ میرے حرف کو اک تازہ نوائی دے گا


جب سوا نیزے پہ سورج کی آنی چمکے گی

سایہ دامنِ احمد ہی دکھائی دے گا


ہر صدا حشر کے میدان میں پتھر ہو گی

نعمہ مُرسل آخر ہی سنائی دے گا


میرا دل اسم محمد سے سکون کا مرکز

ذہین بے مایہ بھی اب اس کی دہائی دے گا

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

آنکھ والوں کا رابطہ نہ گیا

اے کاش مہ گنبد خضری نظر آئے

سخن کی بھیک ملے یہ سوال ہے میرا

ساریاں ستاریاں چ نُور آپ دا

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی

کیوں خدا کی نہ ہو اُس پہ رحمت سدا

لَحَد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں

در ِ مصطفےٰ سے پَر ے ہٹنے والو

فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اَعلٰی تیرا