استادہ ہے کس شان سے مینار رضا کا

استادہ ہے کس شان سے مینار رضا کا

اللہ نے فرمایا ہے اظہار رضا کا


ہو خوفِ خدا عشقِ نبی زیست کا مقصد

تا عمر رہا بس یہی کردار رضا کا


احمد کا جو دشمن ہے وہ دشمن ہے احد کا

تھا درس یہی اور یہی معیار رضا کا


ہر سانس میں دم بھرتے رہے آلِ نبی کا

دل حبِ نبی سے رہا سرشار رضا کا


نیزے کی طرح کام لیا اپنے قلم سے

دشمن کے لیے موت تھا ہر وار رضا کا


مرشد بھی کریں ناز وہ ایسی تھی ارادت

مارہرہ ہی مارہرہ تھا سنسار رضا کا


آجاتی ہے جب بھی کوئی مشکل مرے آگے

پڑھ لیتا ہوں میں نام کئی بار رضا کا


نکہت جسے حاصل ہوئی طیبہ کے چمن سے

پھولے پھلے تا حشر یہ گلزار رضا کا


نظمی کو رضا سے ہے کئی طور سے نسبت

دنیا اسے کہتی ہے علم دار رضا کا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے

رب نے قرآں کی روشنی دی ہے

چلی پیا کے دیس دولہنیا بھیس بدل کے

بَندہ اَم وَالْاَمْرُ اَمْرُکْ آنچہ دانی کُن بمن

سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَالٖ

اِسلامی کانفرنس

سنَّت کی بہار آئی فیضانِ مدینہ میں

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

دنیا سے دین ، دین سے دنیا سنوار دے

یارب ہمیں بلندیٔ فکر و خیال دے