اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

شہپرِ اندیشہ سے اُڑ! سُوئے کاخِ لامکاں


ورطہء جَہلِ مُر کَّب سے نکل اے بد گماں !

تابہ کَے یہ امتیازِ نسل و آہنگ و زباں


عرش کا دل بند ہو کر ، فرش پر اُفتادہ ہے

تُو کہ ہے شہکارِ قدرت اور آدم زادہ ہے


ماسوا کی گَرد سے جب دل ہُوا تیرا مَلُول

تیری جانب خالقِ کونین نے بھیجے رَسول


تیری خاطر ہی بنے سارے تمدُّن کے اُصول

ہاں نہ بھُول اے نائبِ حق ! اپنی عظمت کو نہ بھُول


نُطق کی شمشیر میں تیرے ہی دَم سے آب ہے

عرض ہے امکاں ، تُو اُس کا جوہرِ نایاب ہے


امتزاجِ آب و گِل ہر چند ہے تیرا جہاں

تیرے نقشِ پا کے ذرّے ہیں جواہر کی دُکاں


تیری صَولت سے لرزتے ہیں زمین و آسماں

کانپتا ہے عجز سے تیرے ، غُرورِ آسماں


اپنے دل سے دُور کردے زَعمِ نسل و رنگ کو

صاف کر آئینہء کردار سے ، اِس زنگ کو


تیرے ادراک و تخیُّل میں ہیں اسرارِ اَلَست

تُو ہے دانائے رُموز و آشنائے بُود و ہست


حق پسند و حق نگاہ و حق پناہ و حق پرست

ماہ بر دوش و صبا در دامن و گُلشن بدست


تُو اُجالا دہر کا ہے ، تُو دیا قُطبَین کا

تُو اگر چاہے ،توپھر سکتا ہے رُخ کونَین کا


مَرد بن کر جادہء شبّیر پر ہو گامزن

سیکھ فقرِ بُوذر و سَلماں سے جینے کا چلن


ہاں گِرا دے قلعہء دارائیِ اہلِ فِتن

اے فدائے پنچ تن! اے عاشقِ خیبرشکن !


مانگ شانِ حیدری سے دولتِ عزم و وقار

لا فَتٰی اِلّا علی لا سَیَفَ اِلّا ذُوالفِقار


پیروی کر اپنے پیغمبرؐ کی اے نوعِ بشر !

وہ پیغمبرؐ ، جس کی رحمت ہے محیطِ بحرو بر


فرش جس کا بوریا ہے ، عرش پر جس کی نظر

جس کے نقشِ پا سے روشن ہے رُخِ شمس و قمر


جس نے ضربِ فقر سے ، شاہی کی گردن توڑدی

عجز نے جس کے ، تکبّر کی کلائی موڑ دی


مہبطِ رُوحُ الامین و حاملِ اُمُّ الکتاب

جان و ایمان ِ بلاغت ، جس کا اندازِ خطاب


جس کی آمد سے وُجودِ زیست پر آیا شباب

جس کی بِعثت نے اُٹھایا رُوئے معنیٰ سے نقاب


واسطہ جس کا شفاعت کا مِری سامان ہے

جس کی اُلفت میرا مذہب ہے ،مِرا ایمان ہے


افتخارِ انبیاؑء و آبروئے مُرسَلیں

رونقِ ارض و سما ، زینتِ دِہِ دُنیا و دِیں


مصدرِ خُلقِ عظیم ، مطلعِ عزم و یقیں

خِسروِ مُلکِ بقا ، مخدومِ جبریلِؑ امیں


خُلق ایسا، خون کے پیاسے بھی دَم بھرنے لگے

گُفتگو ایسی ، کہ دُشمن دوستی کرنے لگے


جس نے مظلوموں کو اُن کا حق دلایا وہ رسولؐ

جس نے محروموں کو سینے سے لگایا وہ رسولؐ


جس نے زانو پر یتیموں کو بٹھایا وہ رسولؐ

دُشمنوں کے جور پر ، جو مسکرایا وہ رسولؐ


پِیر زن کی آہ ، جس کی رُوح کو تڑپا گئی

جس کی رحمت کی گھٹا ، سارے جہاں پر چھا گئی


سُوئے اسرارِ ازل جس دَم اُٹھی اُس کی نگاہ

فکرِ انساں پر کھُلی قُربِ خداوندی کی راہ


مِٹ گئی تفریقِ سُلطان و گدا و کوہ و کاہ

گونج اُٹّھی صحنِ عالَم میں صدائے لا الٰہ


عقل و دانش کی اداؤں میں روانی آگئی

پیکر تہذیب انساں پر ،جوانی آگئی


زندگی کے باغ میں چلنے لگی بادِ بہار

اوڑھ لی سَلمائے فطرت نے قبائے زرنگار


جھُوم اُٹّھا یہ مناظر دیکھ کر ہر دلفگار

دل کھُلے ، سَنکی ہَوا ، مہکے چمن ، چہکے ہزار


آگیا وہ ، ذات جس کی مُوجبِ توقیر ہے

جس کے دستِ پاک میں ، کونین کی تقدیر ہے


جس کی طرزِ زندگی پر آج تک دُنیا ہے دنگ

جس کی حکمت نے مِٹایا امتیازِ نسل و رنگ


جس نے سمجھائے زمانے کو اُصولِ امن و جنگ

دین کی نعمت سے بخشا زندگی کو نیک ڈھنگ


جس کی دارائی نے ، ناداروں کو ، دارا کر دیا

ذرّہ ناچیز تھے ، آنکھوں کا تارا کردیا


بد کلامی پر بھی دی جس نے ، دُعائے مُستجاب

جس نے بدخواہوں کو اپنایا ، بہ لُطف بے حساب


کس مرّوت سے کیا ہے اُس نے اعدا سے خطاب

"ماو تُو از یک گلستا نیم ، از ما رُو متاب "


محو ہو سکتا نہیں ، تاریخ کے اوراق سے

درس جو مِلتا ہے اُس کے مکتبِ اخلاق سے


ابر وحدت جھُوم کر اُٹّھا فلک پر ناگہاں

شِرک کے ایوان پر ، برسیں ہزاروں بجلیاں


ہو گیا خونِ جواں ، پھر جسمِ پیری میں رواں

جَہل کے سینے میں کی پیوست ، انساں نے سِناں


چار سُوئے خانہء باطل ، اندھیرا ہوگیا

خاورِ حق سے کِرن پھُوٹی ، سویرا ہوگیا


اے محمدؐ ! اے خَدیوِ جُود و سُلطانِ کرم

دیدہ دل پر ہمارے ہیں تِرے نقشِ قدم


خَم ہے تیرے آستانے پر سرِ لوح و قلم

اے ہدایت کی سرافرازی ! رسالت کے بھرم !


آج اُمّت مبتلائے پستیء افکار ہے

اوج کی خیرات مِل جائے ، تو بیڑا پار ہے