جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں
رہتا ہے نُورِ حسنِ ازل جلوہ گر یہاں
ہے امتیاز مرگ و حیات ایک دِ ل لگی
پاتا نہیں ہوں اپنے نفس کی خبر یہاں
ہوتی ہیں دو جہاں پہ نگاہیں مری محیط
ملتی ہے جب کسی کی نظر سے نظر یہاں
جن کے قدم جرس کی صدا پر نہ اُٹھ سکے
کرتے ہیں پل میں کون و مکاں کا سفر یہا ں
مذہب بھی اپنے حال پہ رہتا ہے اشکبار
منطق بھی ڈال دیتی ہے اپنی سِپر یہاں
جس کی تلاش کرتے رہے لوگ عرش پر
دِل سے نکل کے ہنستا ہے وہ سیم بر یہاں
ایک ایک پل ہے زندگئ جادواں ندیم ؔ
پاتا ہوں عمرِ خضر کو بھی مختصر یہاں