میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں قاسمِ مقسوم نہیں


میں تسلیم کا پیکر ہوں

!میں حاکم محکوم نہیں


میں نے ظُلم سہے لیکن

میں پھر بھی مظلوم نہیں


میں مستی کا ساغر ہوں

ہوش سے میں محروم نہیں


تیری رحمت چھوڑے کون

توبہ میں معصُوم نہیں


میرے تبریزی انداز

میں مولائے رُومؒ نہیں


میں مسجُودِ ملائک ہوں

میں راقم مرقوم نہیں


میں مخلوق کا خادم ہوں

کون میرا مخدوم نہیں


جیتے جی مر جاتا ہوں

مر کے میں معدُوم نہیں


میں نے کیا کیا دیکھا ہے

میں یو نہی مغمُوم نہیں


میں صحرا کی جان ہوا

میں بادِ مسمُود نہیں


میں مایوس نہیں لیکن

اُمیدِ موہُوم نہیں


واصِفؔ کیا نظمیں لکھے

رنگِ جہاں منظوم نہیں

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

(بچوں کے لِیےایک نظم) سچّائی

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

نہ میں شاعر نہ شاعر کی نوا ہوں

نشانِ کارواں بھی ہوگئے گُم

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے

محفوظ ہے اَجے تائیں قیادت دا فیصلہ

مَیں ماٹی کی مورتی ، ماٹی میرا دیس

زندگی اپنے لہُو کا نام ہے

اے خوشا یومِ شوکتِ اِسلام

السّلام اے عظمتِ شانِ وطن !