امیرِ عدل ، تمنائے حق ، دعائے رسولؐ

امیرِ عدل ، تمنائے حق ، دعائے رسولؐ

تری حیات ، برائے خدا برائے رسولؐ


شہاب حق کہوں یا دین کی اٹھان کہوں

تجھے زمین فراست کا آسمان کہوں


نہ صرف اپنے ہی ، قائل ہیں غیر بھی تیرے

ہیں نافذ آج بھی قانون عسکری تیرے


پڑھی نماز دلیری سے تُونے کعبے میں

لگائی حق کی صدا کُفر کے احاطے میں


ہر ایک جنگ میں تُو مُصطفیٰؐ کے ساتھ رہا

ہمیشہ تیغ کے دستے پہ تیرا ہاتھ رہا


لِیے رہا حق و اِنصاف کی ترازُو کو

ہِلا سکی کوئی طاقت نہ تیرے بازُو کو


غرورِ قیصر و کسریٰ کو خاک تُو نے کیا

بلند پایہ چٹانوں کو چاک تُو نے کیا


اصُولِ " وقف" تِری دی ہُوئی زمیں سے بنا

تِرے وقار کا گنبد ستونِ دیں سے بنا


جَلائے تُونے دَرِ شاہِ دو جہاں کے 'دِیے

بصیرتوں نے تِری بول بھی اذاں کے دِیے


تِرا غلام ہی پہلا شہید کہلایا

غلام ہی نے تجھے زیرِ گور پہنچایا


نبی کے بعد بھی کوئی نبی اگر ہوتا

بقولِ ختمِ رُسل تُو ہی اے عُمر ہوتا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

تیری خیر ہو وے اے شہنشاہا اج خیر اساں لے جانی ایں

اگر نادِ علی پڑھنے کی رسم ایجاد ہو جائے

سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

میرے نبی کا راج دلارا علی علی

حق ادا و حق نُما بغداد کی سرکار ہے

عاشقانِ ذاتِ حق کا مدّعا کلیر میں ہے

میراں شاہِ جیلانی پیر

قلم کی تاب کہاں کہ کرے بیانِ غم

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال

درونِ کعبہ ہوا ہے لوگو ظہور