اشقیا کے نرغے میں یوں حسین تھا تنہا

اشقیا کے نرغے میں یوں حسین تھا تنہا

خار زار میں جیسے گل کھلا ہوا تنہا


گردشِ فلک بتلا وہ تجھے لگا کیسا

ناوکوں کی بارش میں پیکرِ وفا تنہا


یا نبیؐ کے کاندھے پر بولتا چہکتا تھا

یا زمینِ کربل پر تھا وہ بے نوا تنہا


جو قیام فرما تھا پیشِ حق شبِ عاشور

اگلی دوپہر کو تھا سجدے میں پڑا تنہا


سورج اس کے پاؤں کو جھک کے بو سہ دیتا تھا

خاک و خوں میں لتھڑا تھا جب وہ مہ لقا تنہا


استعارہء روشن ٹھہرا حق شناسی کا

تج کے شان و شوکت کو حر جو ہو گیا تنہا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

دیگر کلام

کھلا میرے دِل کی کلی غوثِ اعظم

کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے

حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو

جس کرماں والے تے لوکو

سبطِ نبیؐ کے جیسا کوئی سخی نہیں ہے

مجھا پیر نے پیشوا غوثِ اعظم

راکب دوشِ شہنشاہِ امم

تاریخ اپنے زعم میں اک چال چل گئی

قدم کی جا جبیں رکھ کر جو اس کوچہ میں آئے گا

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِاعظمؒ