مدینہ کی انگو ٹھی ہے نگینہ غوثِ اعظم کا
جہاں میں بٹتا ہے ہر سو خزینہ غوثِ اعظم کا
مریدی لاتخف کی دی تسلی ہم غلاموں کو
ڈبو سکتا نہیں طوفاں سفینہ غوثِ اعظم کا
وسیلہ قربِ رب کا ہیں محمد مصطفیٰ بے شک
محمد تک پہنچنے کا ہے زینہ غوثِ اعظم کا
نہ جانے کس بنا پر مشک و عنبر فخر کرتے ہیں
ذرا سنگھواؤ ان سب کو پسینہ غوثِ اعظم کا
ہر ایک سنی کے گھر میں گیارھویں کا جشن ہوتا ہے
وہابی سوز ہے پیارا مہینہ غوثِ اعظم کا
قدم میرا سبھی ولیوں کی گردن پر یہ فرمایا
قدم یہ ہے تو کیسا ہوگا سینہ غوثِ اعظم کا
محی الدین وہ اور یہ معین الدین اجمیری
مرا خواجہ ولایت کا دفینہ غوثِ اعظم کا
ہماری زندگی بھی خدمتِ مخلوق میں گزرے
الہی کر عطا ہم کو قرینہ غوثِ اعظم کا
سرِ محشر پکارا جائے گا یوں نام نظمی کا
یہ نظمی کون ہے ہاں ہاں وہی نہ غوثِ اعظم کا
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا