سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سلام بھیج رہا ہُوں شہیدِ اعظم پر


صدا بھی اپنی مجھے کربلا سے آتی ہے

مہک سی تازہ لہُو کی ہوا سے آتی ہے


ہدف بنایا ہے باطل نے حق کے راہی کو

سِتم نے لے لیا گھیرے میں بے گُناہی کو


جبیں پہ جس کی رسالت مآب کے بو سے

زبانِ کفر اُسے کس خلوص سے کوسے


کیا زمانے کو سیراب جس کے دریا نے

اُسی کے حَلق میں کانٹے بچھائے دُنیا نے


قدم جو رکھتا تھا دوشِ نبی کے زینے پر

سوار ہو گیا قاتل اُسی کے سِینے پر


نمک چھڑکنے جو زخموں پہ دُھول آئی ہے

کفن لِیے ہُوئے رُوحِ رسُول آئی ہے


سیاہ رنگ چڑھے زندگی کے محلوں پر

کھُلے سروں کے صحیفے لہُو کی رحلوں پر


مقابلہ خسِ تنہا کا بجلیوں سے ہُوا

چراغ بر سرِ پیکار آندھیوں سے ہُوا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

کرو نظر کرم اپنی شہر بغداد یا میراں

مرے ادراک سے بالا ہے عظمت فیضِ ؒعالم کی

نکھرے ہوئے کردار کا قرآن ہے سجادؑ

کرو ہم پر عنایت کی نظر یا شاہ جیلانی

حجابِ امامت۔۔۔۳

خون آلود تن حسین کا ہے

گلزار محبت کی فضا میرے لئے ہے

شاہ زادے سب نبیؐ کے واجب التعظیم ہیں

حُسن ِ تخلیق کا شہکار حسین ابنِ علی

خواجہ جی دل میں مرے کیا گل کھلایا آپ نے