سینکڑوں سال ہُوئے جب نہ مِلا تھا پانی

سینکڑوں سال ہُوئے جب نہ مِلا تھا پانی

آج تک ہے لَبِ شبیّر کا پیاسا پانی


کربلا سامنے آتی جو وہ لاشے لے کر

آنکھ تو آنکھ ہے پتّھر سے بھی رِستا پانی


کیسی بَستی میں محمّد ؐ کا مُسافر ٹھہرا

دُھوپ خَیمہ تھی ، دری ریت ، نظارا پانی


تشنگی اُس کی سمندر کو بلا سکتی تھی

کاٹ سکتا تھا وُہ تلوار سے چَلتا پانی


کِس کے سر فتح کا تارِیخ نے سہرا باندھا

سرخرو کون ہے دونوں میں لہُو یا پانی ؟


مَوت کے گھاٹ اُترتے ہی رہیں گے پیاسے

جب تک اِس دجلہ ء دُنیا میں رہے گا پانی


جب بھی ذکرِ شہداء دِل نے مظفّرؔ چھیڑا

آنکھ اِک زخم بنی زخم سے ٹپکا پانی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِاعظمؒ

وہ غدیرِ خم میں اذاں ہوئی وہ سجی خیال کی انجمن

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضٰی چلے

کیسی عظمت پر ہیں فائز اُمہات المومنینؓ

سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

نواسۂ مصطفی، یاشہید کربلا

منگدا نئیں تیرے کولوں کوئی جاگیر میراں

مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو

بنتِ خیرالوریٰ سیدہ فاطمہؓ

میں تو پنجتن کا غلام ہوں