وہ غدیرِ خم میں اذاں ہوئی وہ سجی خیال کی انجمن
وہ رُخِ شعور پہ ضو پڑی وہ بڑھا حیات کا بانکپن
وہ کلی کھٹک سے چٹک گئی وہ بھٹک بھٹک کے چلی پون
لب آرزو پہ دھنک پڑی کھلا خواہشوں کا حسین چمن
دلِ کہکشاں میں اتر گئی وہ ردائے دشت شکن شکن
وہ سواریوں کے قدم رکے، جھکے فرش پر وہ تھکے بدن
وہ فلک کو دیکھ کے ہنس پڑا رخِ ریگزار کا بھولپن
وہ زمیں کے دل میں ہے آرزو کہ ملائے آنکھ ذرا گگن
سوئے مرتضیٰ بڑھے مصطفیٰ بمزاجِ رسم و رہِ کہن
وہ نبی وصی سے ملا ہے یوں ملے جیسے چاند سے اک کرن
وہ علی کا ہاتھ بلند ہے کہاں رہ گئے یہ زمیں زمن
سرِ تختِ ریگ ہے لب کشا وہ امیرِ محفلِ پنجتن
کہا مصطفیٰ نے کہ زندگی مری بات آج سے عام کر
ہے یہی علی مرا جانشیں میرے جانشیں کو سلام کر