یہ کس نے دہن گنہ میں لگام ڈالی ہے

یہ کس نے دہن گنہ میں لگام ڈالی ہے

یہ کون برزخی سکہ چلانے آیا ہے

یہ کس کے ہونٹؤں پہ فکر رسا کی لالی ہے

یہ کون ہم کو نبی سے ملانے آیا ہے


جو بیٹھتا ہے مبلغ کی اونچی کرسی پر

وہی تو پیرِ خرابات میکدہ بھی ہے

دعائیں دیتا ہے جو دشمنوں کی گالی پر

وہی تو ان کی مصیبت پہ غم زدہ بھی ہے


وہ جس نے تِیرہ دلوں کو اجالے بخشے ہیں

عقیدتوں کو قدم بوسیوں سے روکا ہے

مروتوں کے سنہرے قبالے بخشے ہیں

بدی کے دیو کو ہر ہر قدم پہ ٹوکا ہے


امیر شہر کو دھتکارے وہ فقیر ہے یہ

غریب و مفلس و بے کس سے پیار کرتا ہے

نبی کے در پہ جو پہنچائے وہ لکیر ہے یہ

نبی کے عشق کو ایماں شمار کرتا ہے


وہ اپنی خُلق میں ہے منفرد یگانہ ہے

کرم کا جود و سخا کا وہ بھاری پتھر ہے

فقیر خو ہے پر انداز خسروانہ ہے

وہ اپنے سارے محاسن میں خوش سے خوش تر ہے


وہ مصطفیٰ کی نیابت کا فردِ احسن ہے

وہ نوری شکل میں نوری شعار رکھتا ہے

قرابتوں کا امیں قربتوں کا مامن ہے

وہ اپنے آپ میں ہر فن ہزار رکھتا ہے


سلام اس پہ کہ جو پیرِ با کرامت ہے

ارادتوں کے سفینے کا ناخدا ہے وہ

وہ اچھا ستھرا ہے سالارِ علم و حکمت ہے

عنایتوں کے دفینے کا رہنما ہے وہ


خدا کی بارگہِ رحمت و کرم میں ہم

دعا کو ہاتھ اٹھائیں کہ بخش دے مولا

بلائیں دور ہوں ہوں ختم سارے دکھ اور غم

برائے مصطفیٰ نظمی کی بھی سنے مولا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

تیرے لہُو کو جب لہُو میرا بُلا ئے گا

شاہِ بطحا کاماہ پارہ ہے، واہ کیابات غوثِ اعظم کی

لرزے نہ عزم کا عَلَم خونِ حسین کی قسم

خوشنودیٔ رسول ہے الفت حسین کی

دُخترِ برقِ رنج و محن بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے

شاہ زادے سب نبیؐ کے واجب التعظیم ہیں

بوئے بہشت، زوجِ علی، دخترِ رسول

ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث

علیؑ علیؑ عرفان کا در ہے ‘ علی ؑ گویا ولی گر ہے

میرے لب پہ رات دن ہے