عبدِ عاجز کو ہے شوقِ رقمِ نعتِ رسولؐ

عبدِ عاجز کو ہے شوقِ رقمِ نعتِ رسولؐ

ذہنِ حسّانؓ! اِدھر بھی ہو توجّہ مبذول


تیرے اشعار میں محفوظ ہے پیکر اُن کا

تیرے افکار پہ ہے سایہ کُناں زلفِ رَسولؐ


تیری آنکھوں میں ہیں رقصاں وہ مناظر سارے

تُو نے دیکھی وہ جبیں اور وہ چشمِ مکحول


تیرے دامن سے مجھے اُن کی مہک آتی ہے

تیری فطرت میں ہے بیشک اُسی خوشبو کا حُلُول


تُو نے اُس ذاتِ گرامی کا زمانہ پایا

تیری توصیف میں جبریلِ ؑ امیں کا ہے شَمُول


منبرِ نعت کی تُو نے ہی صدارت پائی

شعر تیرے صفِ اَعدا پہ تھے سیف مسلُول


نرم لہجے میں وہ باتیں، وہ تبّسم اُن کا

حافظے میں ترے موجود ہیں وہ رنگ، وہ پھُول


زنگِ عصیاں سے مِرے دل کا ہے آئینہ سیاہ

پر توِ نُور سے ہے تیری جبلّت مصقول


اک ذرا اُس شہِ خوباں کے خدوخال بتا

جس کا جلوہ ترے اشعار کی ہے شانِ نُزول


وہ کہ خورشیدِ ازل ہے بہ سرِ چرخِ وُجود

جسے لاحق نہیں تا شامِ اَبد خوفِ اُفول

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

سرورِ عالی مقام جانِ دو عالم ہو تم

خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

سنگِ دہلیز پیمبر ہوتا

مبارک ہو جنابِ مُصطفےٰ کی آمد آمد ہے

لاکھ بدکار گنہگار سیہ کار ہوں میں

اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی

آئی بہارِ زیست مُقدّ ر سَنبھل گئے

انبیاء کی کہکشاں ہے مصطفیٰؐ صرف ایک ہے

پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں