اے مظہر لایزال آقا
سر تا بہ قدم جمال آقا
وحشی ہے صر صرِ حوادث
گرتا ہوں مجھے سنبھال آقا
دل دستِ فشار میں ہے ایسے
جیسے کوئی یرغمال آقا
رسمیں ہیں تمام جاھلانہ
قدریں ہیں پائمال آقا
اِک وصف ہے انتہا پسندی
اِک عیب ہے اعتدال آقا
دیکھا تھا نہ چشمِ آدمی نے
اخلاص کا ایسا کال آقا
اخلاق کا یہ کساد مولا
انصاف کا یہ زوال آقا
جاری ہے زیست کی رگوں میں
زہرِ زر و سیم و مال آقا
آتی ہے نظر سکوں کی مظہر
صورت کوئی خال خال آقا
جائیں تو کدھر کہ چار جانب
فتنوں کے بچھے ہیں جال آقا
اعصاب جو اب دے چلے ہیں
ہر شکل ہے اک سوال آقا
بے صرفہ گزر تے جارہے ہیں
روز و شب و ماہ سال آقا
حالات سبھی ہیں بدلے بدلے
ہر سانس ہُوا وبال آقا
بے برگ ہوں بے وقار ہوں میں
بے ہمسرو بے مثال آقا
میں غیر کے ہاتھ دیکھتا ہوں
اے سرتا پا نوال آقا
ہر سمت سے حسرتوں نے گھیرا
ہوں آج شکستہ بال آقا
ہو تیرے کرم سے مجھ کو شکوہ
میری کہاں یہ مجال آقا
گھبرا کے مصائب وفتن سے
کی جراتِ عرضِ حال آقا
سینے کی جراحتوں کا تجھ بِن
ممکن نہیں اند مال آقا
دم گھٹنے لگا ہے تیرگی میں
پھر جادہ جاں اُجال آقا
دریوزہ گرِ کرم رہا ہے
فردا ہو کہ میرا حال آقا
شاہا مرے جاں نواز شاہا
آقا مرے خوش سگال آقا
توتیغ ہے جابروں کے حق میں
تو ہر بیکس کی ہے ڈھال آقا
لرزاں تری عظمتوں کے آگے
ذرّوں کی طرح جبال آقا
بحر و بر و دشت پر ابھی تک
طاری ہے ترا جلال آقا
دیتا ہے سکوں دل و نظر کو
ہر آن ترا خیال آقا
اُمّت کو عروج پھر عطا ہو
غم سے ہے بہت نڈھال آقا
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب